حالیہ دنوں میں مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر آگ کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیے گئے حملے میں نہ صرف ایران کی اعلیٰ فوجی قیادت نشانہ بنی بلکہ جوہری سائنسدان بھی شہید ہوئے۔ سوال یہ ہے: کیا یہ سب کچھ اچانک ہو گیا؟ اگر سچائی سے تجزیہ کریں تو اس حملے کو غیر متوقع قرار دینا دنیا کی سادگی ہوگی۔
کیا دنیا اس حملے سے بے خبر تھی؟
یہ کہنا مشکل ہے کہ اقوام متحدہ یا عالمی طاقتوں کو اس حملے کا پیشگی علم تھا یا نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عالمی سیاست کے اسرار و رموز سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ بین السطور کیا کچھ ہوتا ہے۔ کچھ ممالک یقیناً اس منصوبے میں شریکِ کار رہے ہوں گے اور چند ایک کو اسرائیل نے اعتماد میں لے کر ہی یہ کارروائی کی ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے یہ خودساختہ "سرپرست" جن میں "ماں" کا کردار برائے نام اور "باپ" کا کردار غالب ہے، سب کچھ جانتے تھے۔
اقوام متحدہ کا کردار... یا بےکرداری؟
آج دنیا اقوام متحدہ سے جنگ رکوانے کی اپیلیں کر رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ واقعی کبھی کسی مظلوم کے حق میں مؤثر اقدام کر پائی ہے؟ اسرائیل کی مسلسل جارحیت، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، اور خودمختار ریاستوں پر حملے — یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی نظروں کے سامنے ہوتا رہا ہے، لیکن کسی قابلِ ذکر اقدام کے بغیر۔ اگر ماضی میں اسرائیل کو روکا گیا ہوتا، تو آج شاید وہ اس قدر بے خوف نہ ہوتا۔
یہ صرف ایک جنگ نہیں، ایک منصوبہ ہے
ایران پر حملہ ایک بڑا عسکری واقعہ ضرور ہے، لیکن اس کے پیچھے ایک بڑی اور گہری سازش چھپی ہوئی ہے۔ یہ جنگ دراصل دنیا کے نئے جغرافیے کی تشکیل کی کوشش ہے۔ طاقتور ممالک اور اسلحہ ساز ادارے ایک نیا عالمی نظام مسلط کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ان کے لیے مشرقِ وسطیٰ محض ایک میدانِ جنگ ہے، جس کے باسیوں کی زندگیاں صرف "تجربہ گاہ" کا حصہ ہیں۔
پاکستان، چین اور مغربی بلاک: پس پردہ کھیل
یہ جنگ محض ایران اور اسرائیل کے درمیان نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے مابین بالواسطہ تصادم ہے۔ اس کے پیچھے وہی کشمکش ہے جو پاکستان اور بھارت کی حالیہ کشیدگی کے دوران بھی دیکھی گئی، جہاں بھارت کو شکست اور چین کو تقویت ملی۔ اب ایران کو اس اتحاد میں شامل ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ مغرب، بالخصوص امریکہ، کسی بھی صورت چین کو کھلی میدان میں لانا چاہتا ہے تاکہ اس کا مقابلہ براہِ راست کیا جا سکے — اور اس کی آڑ میں مسلم ممالک کو مہرے بنایا جا رہا ہے۔
شیر، بیل اور لومڑی: ایک سبق آموز حکایت
ایک جنگل کی کہانی یہاں بہت کچھ سمجھا دیتی ہے۔ ایک شیر جو چار بیلوں کو شکار کرنا چاہتا تھا، اتحاد کے باعث ناکام رہا۔ پھر اس نے لومڑی، گیڈر اور لگڑ بھگے کی مدد سے ان کا اتحاد توڑ دیا اور ایک ایک کر کے سب کو ہڑپ کر گیا۔ آج پاکستان بھی انہی بیلوں میں سے ایک ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ہم تاریخ سے سبق سیکھیں گے یا خود کو اسی انجام سے دوچار ہوتے دیکھیں گے؟
دنیا ایک موڑ پر کھڑی ہے
یہ وقت ہے کہ دنیا اپنی سمت کا تعین کرے۔ ہر ملک اپنی بچت کی فکر میں ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اگر دنیا ہی نہ رہی تو انفرادی بچاؤ کس کام کا ہوگا؟ یہ جنگ صرف ہتھیاروں، بارود یا فوجی طاقت کی نہیں، بلکہ انسانیت، بقا اور مستقبل کی جنگ ہے۔
اختتام: دعا اور امید
آنے والے دن ممکنہ طور پر مزید ہولناک ہوں گے۔ مگر بطور انسان، ہماری سب سے بڑی طاقت دعا اور اتحاد ہے۔
آئیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ آمین۔ یا رب العالمین۔
0 تبصرے