کہتے ہیں عشق جس کو خلل ہے دماغ کا




"کہتے ہیں عشق جس کو خلل ہے دماغ کا"

عشق کیا ہے؟ 

یہ وہ حقیقی وارداتِ قلبی ہے جو واقعتاً حقیقت سے ظہور پزیر ہوتی ہے گو کہ اسکا مرکز وماخذ انسانی دل رہتا ہے پر دماغ سوفیصدی متفقِ دل ہوتا ہے۔۔

ربِّ ذوالجلال کی ذات اقدس جمیل ہے، جمال پسند ہے اور

اس نے انسان کو اپنے وصف پہ پیدا فرمایا ہے۔

پھولوں کی رنگینی و رعنائی ہو یا مہک، 

بارش کی برستی بوندوں کی کن من ہو یا مٹی کی دل آویز خوشبو، 

جھرنوں کا ترنم ہو یا کلیوں کا تبسم، 

سورج کی سنہری حیات بخش کرنیں ہوں یا چاند کی روپہلی چاندنی، 

ستاروں کی جھلملاہٹ ہو یا معصوم بچوں کی کھلکھلاہٹ، 

فضاؤں کی بلندی کو چھوتے پرندوں کی چہچہاہٹ ہو یا جنگل کے درندوں کی غراہٹ، سر بہ فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیاں ہوں یا سمندروں کی پنہائیوں میں مچلتے اسرار۔۔


کیا انسانی آنکھ کائنات کے جمالیاتی نظاروں کی دید کیلیے بصد حیرت وا نہی ؟؟؟

کیا انسانی دل بصدِ شوق جنوں سرنگوں نہیں؟؟؟ 

عشق نے اک جست میں طے کردیا قصہ تمام

اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

جو ذات ہماری صورت گر ہے وہی ہمارے خیال و احساس کی صورت گر بھی ہے،  خالق کائنات نے چہروں کو تائر دینا سکھایا اور ہمارے قلوب کو ان تاثرات کو قبول کرنے والا ۔۔

وہ آنکھوں کو بینائی عطا فرماتا ہے تو نظاروں کو رعنائی دیتا ہے۔

 وہ خود ہی دل بھی تخلیق فرماتا ہے اور خود ہی دلبر۔۔۔

ابتدائے آفرینش سے آج تک یہ وہ جذبہ ہے جو بصورت صحیفہ آسمانی دل پہ الہام کیا جاتا ہے

یہ امر مسلمہ ہے کہ 

جذبہ عشق کوشش یا محنت کا ماحصل نہیں ، یہ عطائے رب کریم ہے انسانی روح کے اس زمینی سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے تو وہ صرف محبت ہے، 

جذبہ عشق زندگی و کائنات کی انوکھی تشتریح ہے

قران و فطرت کی منفرد تفسیر ہے، 

حیات و مرگ کے مخفی رموز کی جداگانہ آگاہی ہے۔۔

زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ

کسے خبر کے جنوں بھی ہے صاحب ادراک

عشق دھرتی سے ہو تو ریگ زاروں کو گل گلزار بنادیتا ہے، 

عشق آکاش سے ہو تو خلاؤں کی خبر لاتا ہے۔

عشق علم سے ہو تو کائنات کی نئی جہتوں کو عیاں کرتا ہے، 

عشق اگر کام سے ہو تو بام عروج کے راز بیاں کرتا ہے۔

عشق جاہ و منصب سے ہو تو فراعین وجود میں آتے ہیں، 

عشق مال و دولت سے ہو تو قارون نمود ہوتے ہیں، 

عشق شاہ سے ہو تو تاج و تخت ٹھکرا دیتا ہے، 

اور عشق شاہ جہاں کا ہو تو تاج محل بنادیتا ہے، 

عشق اگرماں سے ہو تو ابو بن ادھم کا خیال بنتا ہے، 

عشق اولاد سے گر ہو تو سعی حاجرہ کی مثال بنتا ہے، 

عشق اگر حسن سے ہو تو ماضی داستان لازوال دیتا ہے، 

اور عشق اگر حسن یوسف ہو تو قرآن مثال دیتا ہے، 

عشق نبی ص سے ہو تو بلال و حارث جنم لیتے ہیں، 

عشق دین نبی ص سے ہو تو شہدائے کربلائے معلی مثال بنتے ہیں، 

عشق خدا سے ہو تو منصب ولایت عطا ہوتا ہے

اور عشق جب بندے سے خدا کو ہو تو مرتبہ معراج عطا ہوتا ہے


عشق میں طبیعت نے زیست کا مزہ پایا

درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا

یہ محبوب سے عشق ہی تو ہے جو ناممکن کو ممکن کردکھاتا ہے، 

جذبہ عشق سے بہرہ ور دل ہی راہ وفا میں عزم و استقلال کی بناء پہ کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔

یہ امر واضح رہے کہ 

محبت اشتہائے نفس اور تسکین وجود کا نام نہیں، جذبہ عشق سے مزین و معمور دل اپنے محبوب کی دل آزاری تو درکنار مزاج یار سے چوں چراں کی مجال نہیں رکھتا

اہل ہوس کی سائیکی اور ہے اور اہل دل کا انداز فکر اور۔۔

تجھے کیا خبر تیرے عشق نے مجھے کیسے کیسے ستا دیا

کبھی خلوتوں میں ہنسادیا،  کبھی جلوتوں میں رلادیا

تیرے عشق میں کبھی یوں ہوا کہ نماز اپنی ہوئی قضاء

تیری جستجو نے کبھی مجھے میرے پاک رب سے ملادیا۔

Post a Comment

0 Comments