اُچکّے


 

یادش بخیر کہ اس دن ہماری ڈیوٹی صبح میں تھی ہم گھر لوٹ کر آئے تو چھوٹی آپا کہ ساتھ خالہ جان کے گھر جانے کا پروگرام بن گیا، کہیں جانا ہو تو ہم منٹوں میں تیار ہوجاتے ہیں سو ہم اور آپا چل پڑے- خالہ جان اللہ پاک انہیں جنت میں اعلٰی مقام عطا فرمائیں اس وقت کچھ بیمار تھیں - خیر اسٹاپ سے کافی واکنگ ڈسٹینس پر ہے خالہ کا گھر ،سو ہم مین شاہراہ پر فٹپاتھ پر آپا کے ساتھ باتیں کرتے چلتے گئے - راستے میں کچھ عجیب مفلوک الحال سے لڑکے پر تین چار بار نظر پڑی، وہ کبھی آگے کبھی پیچھے چل رہا تھا ہماری چھٹی حس نے الارم دیا پر ہم نےاپنا وہم سمجھا

 خالہ جان کے پاس دوگھنٹے بیٹھ کر ہم واپس ہوئے اسوقت کوئی شام کےچار بج رہےتھے ، روڈ تک آتے ہمیں وہ پھر نظر آیا تو ہم نے سوچا یہ اسی علاقے میں کہیں رہتا ہوگا

 گلی کے ساتھ فٹپاتھ ہے جس کے ساتھ ہی فوجی قبرستان ہے جہاں راشد منہاس بھی آرام فرما ہیں اسکے ساتھ ہی کرسچن قبرستان ہے، ہم فٹپاتھ پر دونوں بہنیں باتیں کرتے چلے جا رہے تھے کہ اچانک کوئی ہماری سیدھی جانب سے نکلتا چلا گیا اور ساتھ ہی ہمارے کاندھے پہ لٹکتا بیگ بھی ، ہمارا بازو بھی خودبخود کھلتا چلا گیاکہ ہم نے بیگ کا اسٹریپ پکڑا ہوا تھا

 لمحہ کہ ہزارویں حصے میں  ہمیں خیال آیا کہ ہمارا بیگ چھینا جا رہا ہے ساتھ ہی یہ سوچ بھی در آئ کہ جانے دو اس میں ہے ہی کیا بھلا، ۔۔۔۔ 

اگلے ہی لمحے یاد آیا کہ صبح ہمیں کسی کو رقم کی ادائیگی کرنی تھی وہ صاحب آئے نہیں تو وہ  رقم مبلغ پچاس ہزار ہمارے بیگ میں ہے، بس امانت کا دھیان آتے ہی ہم نے اک زور دار چیخ ماری آپا ہمارا بیگ، ساتھ ہی دوڑ لگائی ۔۔۔

 وہ کچھ دور فاصلے پر جا چکا تھا پر آفرین ہے ہماری آپا پر کہ آپا نے ہمیں ہرا دیا اس  میراتھن ریس میں اور اس کے سر پر پہنچ گئیں ،اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، قبرستان کی دیوار پہ دونوں بازو رکھ کے اُچکا اور قبرستان کے اندر کی جانب چھلانگ لگادی پر چُوک گیا کہ اسکے چھلانگ لگاتے لگاتےآپا بیگ پر ہاتھ ڈال چکی تھیں ہم بھی پہنچ چکے تھے سو ہم نے بھی بیگ مضبوطی سے پکڑ لیا ، اسکے ہاتھ میں بیگ اسٹریپ تھے ،اسنے جھک کر دوسرے ہاتھ سے پتھر اٹھا کر ہماری طرف  مارنا شروع  کر دیے،  ہم جھکائ دے کر خود کو بچاتے پھر ہم دونوں بہنوں نے زوردار جھٹکا مارا تو اپنی جھونک میں ہم بیگ سمیت فٹپاتھ پر جا گرے ،شکر ہے روڈ پہ نہیں گرے خطر ناک ٹریفک ہوتا ہے، اٹھ کر دیکھا تو وہ قبرستان کے کافی اندر بھاگتا چلا جا رہا تھا ، آپا نے دو چار پتھر اسے پھینک مارے پر اسے لگے نہیں اور وہ فرار ہونےمیں کامیاب ہوگیا-

 اب جو ہم  مڑے ہیں تو ہاتھ رگڑ لگ کر چھل گئے تھے ، عبایا دیوار کی سفیدی سے زیادہ سفید ہو چکا تھا اور ہمارے ارد گرد برف پانی ،غبارے بیچنے والے جمع ہو چکے تھے اور معصومیت سے پوچھ رہے تھے کیا ہوا باجی؟ کیا ہوا؟ 

 ہم نے آپا کو اشارہ کیا کہ انکا پانی بھی نہیں پینا، اگر یہ اسکے ساتھی نہ ہوتے تو اسکے بھاگنے کے بعد کیوں ہمارے پاس آئے ، گزرتی ٹیکسی کو ہم نے ہاتھ دیا اور غڑاپ سے اندر گھس گئے، آپا کو بھی جلدی اندر گھسیٹا اور  اللہ کا شکر ادا کرتے سیدھے گھر آکر سانس لیا۔

یہ اور بات کہ تب سے اب تک نہ صرف ہم آیت الکرسی کا حصار باندھ گھر سے باہر نکلتے ہیں بلکہ احتیاطاً  بیگ بھی نیا لینے سے گریز کرتے کیونکہ اُچکّے آجکل احباب اقتدار و حفاظت پہ معمور اہل کاروں کی نگرانی میں سڑکوں، گلیوں حتیّٰ کہ گھر کے دروازوں پر بھی سیل فون و پرس اُچکنے میں مصروف ِعمل ہیں۔


Post a Comment

0 Comments