پاسبانِ عقل












زندگی سونا چاندی سے بنی کسی سیدھی و ہموار سڑک کا نام نہیں ہے کہ ہم سفید گھوڑے پہ سوار چابک لہراتے دوڑتے دوڑتے منزل پہ جا پہنچیں، یہاں کہیں راستے میں کھائیاں آجاتی ہیں تو کہیں چٹانیں، زندگی کے سفر میں آنے والی ناہمواریاں کبھی منہ کے بل گرادیتی ہیں تو کبھی اچانک ہی کامیابی و کامرانی کی بلند چٹان سر ہوجاتی ہے، ہم اسے خوش قسمتی یا بد قسمتی گردانتے ہیں گوکہ ہم میں سے اکثریت اپنی زندگی کیلئے منصوبے بناتے اور اس کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں سو نتائج عموماََ موافق اور خصوصاً مخالف بھی ہوا کرتے ہیں یقیناً  کامیابی محنت سے مشروط ہے پر  ہوا کا رخ پہچان کر چلنا بھی شرط ہے اس کے ساتھ ہی کاتب تقدیر کی منشاء و مرضی بھی لازم ملزوم ہے  کہ   وتعزُّ من تشاءُ وتذلُّ من تشاء۔۔۔
اس کامیابی کے حصول کیلئے  خالق کائنات نے ہماری حیات کے دو نظام وضع کئے ایک جسمانی دوسرا روحانی۔دونوں ہی نظام کی تحقیق و جستجو میں علم و ہنر سے آراستہ ذہن بصورت سائنسدان اور راہِ تصوّف کے مسافر عشقِ  
حقیقی سے مزیّن ہونے کے باوجود  "زندگی" کی "ز" اور "موت" کی "م" تک نہ پہنچ سکے ہیں " ہزار ہا تحقیقات
 کے بعد بھی "ازل" اور "ابد"  کا "الف " نہ پا سکے ہیں
حقیقت تو یہ ہے کہ مخلوق  اپنے خالق کی گَرد کو بھی بھلا کیونکر پہنچے کہ خالق ہی کے دیعت کردہ علم کی بدولت  
آج ہم ستاروں پہ کمند ڈال رہے ہیں۔
یہ علیحدہ حقیقت ہے کہ ہم خود کو پہچان نہیں رہے ہے ہیں۔
 آج میڈیکل سائنس  انسانی جسم کے تقریباً  ہر عضو کی پیوند کاری کے ساتھ ساتھ بحالئ صحت کیلئے کوشاں ہے مگر۔۔۔۔مگر مگر آج بھی انسانی دماغ کی حقیقت کو نہ سمجھ پائے ہیں
یہاں ہم دو زاتی تجربات و مشاہدات کا ڈکرت چلیں دس سالہ بچہ اچانک ہی  الٹیاں کرتے بے ہوش ہوا ہاتھ پاؤں اکڑ گئے ۔  پندرہ دن ڈاکٹروں  نے آبزرویشن  پر رکھا اینٹی بائیوٹک دیتے رہے ۔ہر قسم کے ٹیسٹ لئے جا تے رہے  بچہ ہمارا ہوش میں واش روم خود اٹھ کر جاتا، گرتا پڑتا ڈرپس پہ چل رہا تھا ۔پندہ دن بعد ہمارا صبر جواب دے گیا عین اس وقت جب صبح نو بجے سے است دماغ کے سٹی اسکین کے لئے لے جایا گیا تھا اور چار بجے تک ہنوز وہ مشین میں ہی تھا،  ہم ڈاکٹرز کے کمرے میں سب کے روکنے کے باوجود داخل ہوئے  ہمارے استفسار  پہ جو بیان ڈاکٹر صاحبان نے دیا وہ یہ تھا کہ" بچے کے حرام مغز میں 1.4سینٹی میٹ چوڑی اور 2.5سینٹی میٹر لمبی کوئ چیز موجود ہے جو ہم سمجھ نہیں پارہے کہ کیا ہے سو اسوقت ہم بین الاقوامی برین اسپیشلسٹس کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں دیکھیں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم جو سامنے اسکرین پہ دیکھ رہے تھے جہاں ہمیں اپنے بچے کے دماغ سے نکلتا خون ریڑھ کی ہڈی کے آخری مہرے تک بتا دکھائ دے رہا تھا ۔دروازے کی جانب پلٹے۔۔
    دوسرے نامور پرائیویٹ نیورولوجسٹ ڈاکٹر کے پینلز نے ہمیں بتایا کہ بچے کے حرام مغز کی رگیں آپس میں بل کھا کر پیوست ہیں جو اس سائز کی گانٹھ کی صورت دماغ میں دکھائ دے رہی ہے،  یہ دنیا کا چوتھا کیس ہے اس سے پہلے تین کیسز میں بچوں کی موت ہوچکی۔ اسکا علاج صرف سرجری ہے اور بچے کے بچنے کے دس فیصد چانسز ہیں۔
اللہ کریم راضی رہیں  انجیو گرافک ڈاکٹر شاہد صاحب سے کہ پینل میٹگ کے بعد انھوں نے ہمیں اپنے کمرے میں بلایا اور کہا" آپ اس بچے پر ڈاکٹرز کو کوئ تجربہ نہ کرنے دیں اسے اللّٰہ کے حوالے کردیں بس۔۔۔۔ 
آج وہ بچہ حق سبحانہ وتعالیٰ  کے فضل و کرم سے پچیس سال کا چاک و چوبند نوجوان زندگی کی دوڑ میں مصروفِ عمل ہے۔ الحمد للّٰہ
آپ بتا سکتے ہیں کہ ہم نے کیا کیا ہوگا؟؟ 

جی درست سمجھے ۔۔۔ہم اس وقت اپنے بچے کو ڈسچارچ کروا کر گھر لے آئے کہ ہمارا بچہ ان کے تجربات کیلے نہیں ہے۔
مزید براں سانحہ اے پی ایس پشاور  کے چند دن بعد جبکہ افواج سے متعلق تعلیمی اداروں میں ایمرجنسی نافذ تھی کہ ایک دن ابھی ہم ڈیوٹی  پر پہنچے ہی تھے اور اسمبلی کے بعد بچے ابھی کمرہ جماعت میں ٹھیک طرح بیٹھ بھی نہ سکے تھے چھٹی کا حکم آگیا۔خیر چھٹی کے بعد اساتذہ کو بھی چھٹی دیدی گئی ہم بھی چل پڑے ہمارے ساتھ. ایک نئی تقرر کردہ معلمہ بھی تھیں کہ ان کا راستہ بھی وہی تھا سڑک پر ہنگامی حالت کی وجہ سے ٹریف نہ ہونے کے برابر تھا ہم نے رکشہ روکا ہم دونوں کے بیٹھ جانے کے بعد ہم نے بیگ کھولا پیسے نکالنے کیلئے ۔سیل فون میں ٹائم دیکھا ایک بجکر پندرہ منٹ ہوئے تھے۔ پھر اسکے چراغوں میں روشنی نہ رہی،  جب آنکھ کھلی، ہم نے خود کو ہسپتال کے بستر پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہوا دیکھا، ہمارا بیگ حتٰی  کے ٹشو بھی ہمارے ہاتھ میں تھا بالکل سامنے والے بیڈ پہ وہ معلمہ گھبرائ ہوئ پریشان بیٹھی تھیں ان کے پیچھے دیوار پہ گھڑی تین بج کر تیس منٹ بتارہی تھی،  ہمارے سر کے پچھلے حصے میں درد محسوس ہورہا تھا ہم نے اسکارف کے اندر سے ہی ہاتھ ڈال کر اپنا ہئیر کلپ نکالا کہ شائید اس کی وجہ سے تکلیف ہو رہی ہے کلپ نکالتے ہی کوئ چیز تیزی سے ہماری گردن پہ بہنے لگی ۔ہاتھ پھیرا تو خون بہہ رہا تھا۔
اس اثناء میں معلمہ بے چاری مستقل ہمیں بتا رہی تھیں کہ میڈم ہمارے رکشہ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا  آپ رکشہ سے باہر گر گئیں تھیں اور پھر خود ہی اٹھیں گاڑی میں بیٹھیں بیگ اور ٹشو بھی نہیں چھوڑا خود اپنے پیروں پہ چل کر ہسپتال کے اندر آئ ہیں۔۔۔۔بس آپ پلکیں نہیں جھپک رہی تھیں، نہ کسی کی بات سن رہی تھیں اور نہ ہی کسی بات کا جواب دے رہی تھیں۔
ٹیٹنس کا انجیکشن لگواکر اور سر پہ پٹی بندھوا کر ہمارے گھر پہنچنے تک بلکہ آج تک یہ ہی سوچتے رہے ہیں کہ ہماری زندگی کا وہ وقت جو تقریباً پونے دو گھنٹے پر مشتمل تھا ہم نے کہاں گزارا۔ دیکھنے والی آنکھ تو ہمیں زندہ وجود کے ساتھ اسی دنیا میں چلتا پھرتا دیکھ رہی تھی،  نہ ہم بے ہوش تھے اور نہ ہی وہ کومہ کی کوئ قسم تھی پھر بھلا کیا تھا؟؟؟؟ 
یہ ہمیں کوئ نیورو لوجسٹ بھی نہیں بتاسکا سوائے یہ کہنے کہ اللہ کا شکر ادا کریں۔اور کیوں نہ کریں کہ یہ رب ذوالجلال ولاکرام کا حق ہے اس کی دی ہوئ زندگی اسکے شکر میں تمام ہو۔

Post a Comment

0 Comments