کلیم اللہ

by Damadam


کلیم اللّٰہ

امر مسلمہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام  سے اللہ رب جلیل گفتگو کیا کرتے تھے اور حضرت کو جواب بھی دیا کرتے، ذرا غور فرمائیے کہ دورانِ سفر جو موسیٰ آگ لینے گئے تو ندا آتی ہے"موسٰی میں ہوں تمہارا رب"  یعنی رب تعالیٰ سے موسیٰ کی جان پہچان تو پرانی ہے نا۔۔ کہیں تو پیدائش سے لیکر پرورش تک احوال بتاتے ہیں کس طرح اللہ جل شانہ اپنے مسقبل کے پیمبر کی حفاظت فرمارہے ہیں، آگے چلئے تو تیس دن کے وعدے پہ کوہ طور پہ بلائے جاتے ہیں دس اور بڑھا کر چالیس دن میں شریعت موسوی سے بمعنی شریعت الہی سے نوازے جانے کے باوجود جب موسٰی دیدار الٰہی کا تقاضہ کرتے ہیں تو اپنے پیارے کی خواہش اللہ کریم ٹالتے نہیں ہیں جبکہ موسیٰ اک تجّلی سے ہی ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں،

حضرتِ آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ نے وآلہ وسلم  تک مطالعہ کیجئے تو شعور کے اوراق پہ یہ عقدہ کھلتا ہے "رب تعالیٰ تو اپنے بندوں 

  کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں"

"آدمی" لفظ آدم سے مروجہ ہے 

ہم سب اولاد آدم ہونے کی ناطے نہ صرف اللہ کی پسندہ تخلیق ہیں بلکہ ہمیں یعنی آدمی ہی کو رب عزوجل نے اپنی آزمائش کا بار اٹھانے کے قابل سمجھا وگرنہ خالق کی رضا کے بناء تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ انسان اس کارِدار کے لائق ٹہرایا جاتا،  جی ہاں یہ ہم انسان ہی ہیں جنہیں مسجودِملائکہ کا شرف بخشا گیا،  کیونکہ اپنی رحمتِ خاص سے "علم" کے نور سے منور کیا گیا یہاں تک کہ اشرف 

المخلوقات  کے درجہ پہ فائز کیا گیا۔ اور اپنی اس لاڈلی مخلوق یعنی ہم سے اللہ تعالیٰ بہت پیار کرتے ہیں،  ہمارے ناز اٹھاتے ہیں، صبح بھوکا اٹھاتے ضرورہیں پر رات کو بھوکا سُلاتے نہیں،  اللہ کی بخشی ہوئ نعمتوں کا حساب تو بہت دور کی بات ہے انہیں گننا بھی ممکن نہیں،  صرف اِک سورج ہی کی مثال لیجئے، اس کی روشنی، اسکی حرارت، اسکا طلوع وغروب ہونا، اسکی گردش سے بدلتے صبح وشام، دن رات، ہفتے مہینے، سال، صدیاں، بدلتے موسم، سردی گرمی خزاں بہار، برسات، دریاؤں سمندروں کی روانی، فلک پوش پہاڑوں  پہ جمتی پگھلتی برف، زمیں پہ پھیلتی روپہلی گھاس یا بلند و بالا درخت، جنگل کھیت کھلیان۔۔۔۔۔ صرف اِک سورج کی گردش  کے طفیل ہی تو ہیں۔۔ اور بھلا ہم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلائیں گے

ذرا رُکئے!!!!!

انسان کو مٹی سے کھنکھناتی، بجتی مٹی کے گارے سے بنایا گیا پھر اس میں اللہ جل شانہ کی جانب سے روح پھونکی گئی۔۔ ہے ناں ایسا ہی ہے نا۔۔۔۔۔

تو مٹی کی خاصیت میں کیا ہے؟ عجز ہے، عاجزی ہے، انکساری ہے، جھک جانا ہے ،نرم رہنا ہے، ہلکا رہنا ہے، کام آنا ہے سمیٹ لینا ہے، بلندی کی چاہ نہیں، افق پہ نگاہ ہے پر انسان کے قدموں بچھا رہنا ہے۔۔۔

اب وہ جو روح پھونکی اس خاکی تن میں، وہی تو اصل ہے وہی تو رب تعالیٰ کو پَرتَو ہے۔

نہیں سمجھے تو ذرا شعور کی آنکھیں وا کیجیے حضرتِ انسان کے اندر جذبات، رحم دلی، انسیت، پیار، محبت، نفرت، غصہ، اضطراب  غرضکہ متفرق احساسات و جذبات سے انسان کو سنوارا گیا ہے، پھر حدود و قیود لگادی گئیں کہ بس اتنا اور ایسا کرنا ہے ۔اس سے زیادہ نہیں اور اس سے کم نہیں۔۔ 

یعنی اپنی اس شاہکار تخلیق سے اللہ جل شانہ کماحقہ واقفیت رکھتے ہیں کہ حدود نافذ نہ کی گئیں تو اس مخلوق کی پرواز کہاں جائے گی۔

جی ہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف انسانوں کو ہی اپنی حدود میں رکھنے کیلیے ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب پیغمیر دنیا میں اتارے گئے، حضرت آدم سے لیکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تک، آسمانی صحیفے نازل ہوئے توریت سے لیکر قرآن مجید فرقان حمید تک،  احکاماتِ الہی کا مرکز صرف ذاتِ انسانی ہی رہا ہے کہ ہم ہی وہ مخلوق ہیں جو اپنے علم پہ نازاں و فرحاں ایک طرف زمین کی تہوں کی خبر لاتے ہیں تو دوسری جانب کہکشاؤں کی تفاصیل طشت ازبام کئے دیتے ہیں اور اس سفر میں اپنے خالق کی پہچان کو بھلائے دیتے ہیں۔۔

خالق تو ہمارے اندر دھونی رمائے بیٹھا ہے اپنے مخلوق کی سرکشی پہ ہنستا ہے، رسّی دراز کرتا ہے،  چھوٹ دیتا ہے پھر فرماتا ہے میں ہوں تمہارا رب،  بخشنے والا مہربان، توبہ قبول کرنے اور گناہوں کو مٹادینے والا رحمت کرنے والا، کرم فرمانے والا،  میں ہی ہوں تو تم کدھر منہ اوندھائے جاتے ہو، 

انسان اگر خود کو پہچان لے، اپنی پیدائش کے مقصد کو جان لے،  اپنے اندر بیٹھے معبودِحقیقی کو پہچان لے، اسکی بندگی کے رموز جان لے تو کچھ مشکل نہیں کہ رب کریم اس سے راضی ہوں، اس سے کلام کریں اس کی سنیں، اسکی مانیں، اپنی منوائیں۔۔بے شک رب کو پہچان جانے والے ہی ہدایت کی راہ پر ہیں، کلیم اللہ ہیں۔


Post a Comment

0 Comments