خلیفة اللہ


اللہ رب العزت کی مخلوقات میں ہر ذی روح کا اک مقام متعین ہے اسی مقام و مرتبے کے مطابق ہر اک کا اک مقصد حیات بھی مقرر

کردیا گیا ہے چونکہ انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف بخشا گیا چنانچہ خلیفة اللہ کا منصبِ جلیل و تاجِ عظم بھی انسان ہی کے سرِ اقدس پہ سجایا گیا

جسکی وجہ صرف اور صرف انسان کو دیا گیا علم اور اسکی فضیلت رہی۔۔
گو کہ اسی بناء پہ حضرتِ انسان مسجودِ ملائکہ ٹہرائے گئے مگر شیطانِ لعین و نفسِ عمارہ کے ہاتھوں گنہگار ٹہرائے گئے اور جنت سے دیس نکالا دئے جانے کے بعد زمین پہ بسائے گئے
عرصہ دراز کے بعد جب اولادِ آدم میں قابیل کو ہابیل سے آزار ہوا، یوں زن کیلیے اس سے برسرِ پیکار ہوا، لامحالہ ہابیل سوئے عدم روانہ ہوا، قابیل کی حیرانگی کا نہ کوئی ٹھکانہ ہوا کہ اس سے پہلے نہ کوئی یوں بیدم ہوا، بھائ کے یوں جانے کا غم چھوڑ کر لاش اسکی چھپانے پہ پیہم ہوا، راہ کوئ سجھائ دیتی نہ تھی، یوں گھر واپسی دکھائ دیتی نہ تھی۔ باوا آدم کو منہ کیا دکھاؤنگا میں۔۔ پوچھا بھائی کا تو کہاں سے لاؤنگا میں۔۔۔
یہ ہیں حضرتِ انسان اور یہ ہے انکا علم۔۔۔ اس کشمکش کے عالم میں پروردگارِ عالم نے قابیل کی راہنمائی کیلے دو کوے بھیجے جو آپس میں لڑتے رہے یہاں تک کہ اک کوے نے دوسرے کو جان سے مار ڈالا۔۔ پھر چونچ کی مدد سے زمین کھود کر مردہ کوے لاش کو گڑھے میں چھپا کر پروں سے مٹی سے ڈھانپ دیا۔۔۔ یوں قابیل نے ہابیل کی لاش کو زمین بُرد کیا۔۔اور قاتلِ اوّل ٹہرا۔۔
ذرا سوچئے۔۔۔۔ کوے کا نسلِ اسانی پر احسان۔۔۔۔۔
وہی کوا جسے آج حقیر ترین گردانا جاتا ہے۔۔ جو ہر وقت خوفزدگی کے عالم میں رہتا ہے کہ وجہ ازروئے روایات حضرت نوح علیہ السلام کی بدعا ٹہرائ جاتی ہے۔۔
پر آج بھی آپ غور کریں تو یکجہتی، اتحاد، اتفاق آپ کو کوؤں ہی میں دکھائ دے گا۔۔ کسی ایک کوے کو ذرا کہیں خوراک دکھائ دی نہیں اور اس نے کائیں کائیں کر کے اپنی پوری برادری جمع کرلینی ہوتی ہے۔۔۔
اور انسان کبھی خوراک کیلیے، کبھی مال و دولت کیلیے، کبھی مان و مرتبے کیلیے، کبھی زن و زر کیلیے، کبھی جاہ و حشم کیلیے اپنے ہی بھائ کی جان لینے سے گریز نہیں کرتے۔۔
پھر کوؤں کی مدد کے منتظر رہتے ہیں۔۔۔
آج آدمی۔۔۔ یعنی اولاد آدم بلخصوص کہیں تو اہلِ مسلم دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک انفرادی واجتماعی تنزلی کا شکار ہیں۔۔۔وجہ یقینا احکام خداوندی کی نافرمانی و گمراہی ہے۔۔۔مگر مقام افسوس یہ ہے کہ خود کو حق پہ تصور کرتے ہوئے اپنے ہی دینی بھائیوں کے گلے کاٹتے جارہے ہیں اور ظلم یہ ہے کہ کوؤں کے سبق کو بھی بھلا چکے ہیں۔۔سر بریدہ لاشوں کو زمیں برد کرنے کے بھی روادار نہیں۔۔
تو اس دور کا انساں۔۔۔ انسان کہلانے کا بھی حقدار نہیں

Active

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے