بچپن کے دن

 


بولتی گڑیا، کھیلتے جگنو


ہمارا بچپن

 بولتی گڑیا، ناچتا بھالو اب الماری میں رہتے ہیں 

ہم سے کیوں کُٹّی کرلی، ہم سے اکثر کہتے ہیں

نظریں چرا کے ان سے، ہنس کے ہم یہ کہتے ہیں

جیتی جاگتی دنیا میں سب، بولتے ناچتے رہتے ہیں

صبح النور ڈھول تماشے، بینڈ باجوں کا شور تھاجب ہم دنیا میں وارد ہوئے۔ اتنے سمجھ دار تو نہیں تھے اپنی آ مد کی خوشی جان کر لگے کلکاریاں بھرنے، مادر محترم کی جانب  نظریں اٹھائیں دلہن کا روپ لئے السپرا، یہ تو ابھی دلہن، تو ہم کیا ان ایڈوانس، مارے حیرت کے چلائے-تو آوازیں آنے لگیں ارے بھئ، ماں کو دو، دلہن مومانی گڑیا کو چٹکی کاٹ رہیں، پتہ چلا ماموں میاں کی بارات دلہن کو رخصت کروا کے نانی جان کے آنگن میں اتری ہی تھی کہ منہ دکھائی کے لئے ہمیں چُنا گیا (دیواروں میں نہ سمجھا جائے)😜 ماموں میاں نے گود لینے کی بڑی آرزو کی ہمیں پر  ابو جی نہ مانے سو ہم اپنے ابو جی ، امی حضور اور دو عدد آپاؤں اور دو ہی بڑےبھائیوں کے زیرِ سایہ پرورش پانے لگے

انہونیاں تو بہت ہیں ہماری پر یہاں صرف چنیدہ ہی بیان کرتے ہیں 

بھائی جان اور ہم ایک ہی اسکول میں تھے خالہ جان اور مامو جان کے بیٹے بھی ،پورے گروپ کی "شرارتوں پہ  لوگ کان پکڑتے "ہمارے"-

 اک مرتبہ پورا ٹولہ اسکول سے "ٹُلّہ " مار کے پی اےایف کے باغ پہ جو کہ ساتھ ہی تھا جنگل ہی سمجھیں، دھاوا بولا- پرو گرام کچی کچی کیریاں( آم) پکے پکے بیر، رسیلی جنگل جلیبی ، امرود، گوندنی، اور کٹارے ( املی) کھانے کا تھا- حسب دستور ہم درخت پہ چڑھے ہوئے، سارے بھائی مل کے ہمارے توڑے ہوئے پھل اسکول بیگ میں جمع کرتے جاتے- وہ امرود کا درخت تھا اوپر کزن اور ہم نیچےاپنی فراک میں امرود جمع بھی کر رہے اور منہ اوپر کئے ہدایات بھی دئے جارہے تھے کہ وہ والا پکا ہے توڑیں کہ اچانک صور اسرافیل کانوں میں گونجنے لگا، سنتری سیٹیاں بجاتا دوڑتا آرہا تھا۔۔۔ فراک کا دامن ہاتھ سے چھوٹا اور ہم بھی سب کچھ حتیٰ کے بیگ بھی چھوڑ کے میراتھن جیسے کھیلنے لگے، ہم جیت گئے، سانس درست ہوئی تو گھر پہنچے- اففف!!!! نہ پوچھیں ہمارے کارنامے بمعہ ثبوت مطلب فروٹ وہاں پہلے سے موجود تھے  ہم حیران باقی سب تو ٹھیک پر کھجور اور ناریل تو ہم توڑ نہیں سکتے تھے ، بندروں کی طرح درختوں پہ چڑھنا اور بات پھر بھی-- خیر اندر گئے سنتری صاحب ابو جی کے ساتھ چائے پی کے ہمیں پیار کر کے چلے گئے، بھائیوں کا حال کیا بتائیں اب تک کسی درخت کی جانب دیکھتے ہوئے نہیں پائے گئے

ہمیں اس دن پتہ چلا  بھائ کےساتھ ایڈمیشن دلانے ابو جی کا مقصد- خود  کوسی آئی ڈی محسوس کرتے ہیں اب تک ہم- اور آج بھی پھل درختوں سے توڑ کر ہی کھاتے---چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

دوسرا قصہ آج بھی یاد کرتے ہیں تو ایک لمحےکیلئے چکرا ضرور جاتے ہیں  

 ہم 11 سال کے تھے تب خالو میاں کی ڈیتھ ہوئی ہمارے ہاں بچوں کو جنازے پہ نہیں لے کے جاتے سو گھر کےسب بڑے چلے گئے اور وہاں ہی ٹہرگئے اگلے دن سوئم تھا ہمیں کہا گیا کہ سب کو لے کے پہنچو- کزن کے ساتھ جانا تھا اسکی اسکاؤٹ میٹنگ تھی ہم نے کہا ہم کیا خود نہیں جاسکتے😎  سو چل پڑے ہمارے ساتھ ہم سےایک سال بڑی خالہ زاد بہن اس سے چھوٹے اس کے چار بہن بھائی -اور ہم سے چھوٹے ہمارے پانچ بہن بھائی--سب سے چھوٹے کو ہم نے گود میں اٹھایا ہوا- گھر کے  سامنے روڈ سے ہی بس ملی- خالہ کے اسٹاپ کا پوچھا، جاؤگے؟، اسنے سر ِہلایا ہم سب کو لے کے چڑھ گئے کوئی شام کے چار بجے تھے اس وقت -پھر  پہلے پانچ بجے ، چھ، سات آٹھ حتٰی  کہ رات کے نو بج گئے خالہ کا اسٹاپ نہیں آیا (ہمیں بس سے سفر کی عادت نہیں تھی اسلئے راستے بھی نہیں سمجھ آرہے تھے) ہم نے آسمان سر پہ اٹھا لیا اب کنڈیکٹر کہتا کسی اور اسٹاپ کا سمجھا میں- ہم نے کہا تمہارے سمجھنےکی ایسی کی-- ہمیں واپس ہمارے گھر پہنچاؤ- وہ ہر اسٹاپ پہ کہے اتر جاؤ ہم نہ مانیں- نو بجےبجے بس کا آخری اسٹاپ اور اسٹاف تبدیل ہوا-ہم ہماری بچہ فوج کے ساتھ دھرنا مار کے بیٹھے راگ الاپ رہے- جہاں سے آئے ہو جاؤگے تو واپس وہیں نا- ہم وہاں ہی اتر جائیں گے- خیر واپسی کا سفر، ہمارے خیال میں شروع ہوا 

دل اب دھک دھک کرنے لگا تھا--یا اللہ اپنے حفظ امان میں رکھنا- دل دل میں نوافل مان لئے خالہ کے گھر سے دو اسٹاپ دور اسنے ہمیں اتارا کہ ہماری بہن کی ضد تھی کہ جانا تو خالہ جان کے ہاں ہی ہے- کنڈیکٹر نے ہمارا کرایہ واپس کیا کہ دوسری بس میں بیٹھ جاؤ اور دو اسٹاپ بعد اتر جانا--ہم کہاں دوبارہ  خود کو آزمانے والے تھے سو پیدل سفر کا قصد کیا سوائے خالو اور بھائ کے ناموں کے کچھ اتہ پتا نہ  تھا۔  دو خواتین جو ہماری ہمسفر تھیں ساتھ لے کہ چلیں کہ ہمیں بھی وہیں جانا ہے-- بھائی کے نام سے پوچھتے آخرکار گھر پہنچے تو رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے اسکاؤٹ والا بھائی بیٹھا تسبیح پڑھ رہا تھا ہمیں دیکھ کے آنکھوں آنکھوں میں چپ رہنے کا اشارہ کیا سو ہم چپ رہے اس وقت کہ عافیت اسی میں تھی جلدی سے نوافل ادا کرنے کھڑے ہوگئے باجماعت--سب غمزدہ لوگوں نے رونا دھونا چھوڑ کہ ہمیں حیرانگی سے دیکھا کے بچے کتنے نماز کے پابند ہیں

بس کے سفر کی اب بھی عادت نہیں سو اگر مجبوری ہو تو۔۔۔۔۔ اب بھی کئی بار رونگ نمبر لگ جاتا ہے- پر اب یہاں کے کانسٹیبیل ہمیں اچھی طرح جان چکے ہیں

کہتے ہیں کہ بچوں کی حفاظت کیلئے اللہ فرشتے ان کے ہمراہ کرتے ہیں یقیناً  ایسا ہی ہے وگرنہ  ہم تو باجماعت اغوا ہوچکے ہوتے صد شکر یا الہ العالمین  آپ اپنے بندوں پر کس قدر مہربان ہیں،  ہم ہی بندگی کا حق جیسا کہ چاہیئے ادا نہیں کرپاتے۔

 آنکھیں بند نہ بھی کریں تو سب کچھ نظروں میں گھوم رہا ہے ابو جی کا روز شام میں واپس آ کے کھانا کھا کے ہماری انگلی پکڑ کے مارکیٹ جانا اور روز ایک گلاب جامن لے کہ دینا-ہم نے فورًا کھا بھی لینا- نانا جان کی کہانیاں نانی جان کی ہاتھ کی بنائی ہوئی کپڑے کی گڑیاں بچپن کے سارے کھیل، ابو جی کی تجویز کردہ موویز دیکھنا-ساری ساری رات ان سے روایات قصے سننا- امی جی کے دھموکے- اب بھی ہم ان کےہاتھ کی رینج سے دور بیٹھتے ہیں جی ہاں اب بھی ہماری امی جان کے دھموکے بلکل بچپن کی طرح ہماری کمر پہ لگتے اور بچپن ہی یاد دلاتے رہتے ہیں۔رب تعالیٰ ہماری ماں کا سایہ تادیر تادیر ہمارے سروں پہ قائم رکھیں۔آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے