کراچی ہمارا آبائ شہر اور پسندیدہ ہے جسکی بنیادی وجوہات میں سرِفہرست اس شہر اسکی انسان دوستی کی خصوصیت ہے ہر ایک کیلیے اس کی بانہیں کھلی ہیں، ماں کی ممتا کی مانند یہ سب کیلئے چھتر چھایا کی حیثیت رکھتاہے پاکستان کے ہر علاقے سے آنے والے کیلئے اس نہ صرف اس شہر کی زمین میں وسعت ہے بلکہ شہریوں کے دل بھی بڑے ہیں جو سچ کہیں تو اسے منی پاکستان کا لقب بھی بلکل درست ہی دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہاں آپکو پاکستان کے ہر علاقے کے رہنے والے ملیں گے کیونکہ یہ شہر کسی بھوکا نہیں سُلاتا۔
دوسری خاص خوبی اس شہر باسی صبح سویرے اٹھ کر بھاگنا شروع کرتے ہیں طلباء ہوں یا اساتذہ، خواتین ہوں یا حضرات، فیکٹری مالکان ہوں یامزدور، دکاندار ہوں یا خریدار، جسے دیکھو بھاگا چلا جارہا ہے ،ہوائ جہاز ہو یا پانی کا جہاز، ٹرین ہو یا بس، کار ہو رکشہ بلکہ چنگچی، موٹر سائیکل ہو یا سائکل، ہر طرف اک دوڑ لگی ہوئ ہو جیسے اور یونہی دوڑتے بھاگتے زندگی کی شام ہوئ جاتی ہے۔
عروس البلاد کو پسند کرنے کی تیسری بڑی وجہ ۔۔۔یہاں کوئ کسی کے معاملے ٹانگ نہیں اڑاتا، کوئ چاچا خواہ مخواہ بننے کی کوشش نہیں کرتا، حتٰی کے پاس پڑوس کے بارے میں بھی لاعلم ہی رہتا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑا شہر ہونے کے ناطے آبادی کی رہائش کیلئے جہاں گھر، مکانات، بنگلے اور کوٹھیوں کے سلسلے ہیں وہیں کثیرالمنزلہ عمارات یعنی فلیٹس بھی ہیں اس کے اگرچہ کے فلیٹس میں رہنا بھی کم از کم ہمیں دشوار گزار لگتا ہے کہ سکڑے سمٹے ہوئے سے لگتے ہیں مگرجو سوسائٹیز بنائی گئی ہیں الامان۔۔۔۔ یہاں گھروں کی پچھلی طرف سے دوسرا گھر جوڑ کر بنایا جاتا ہے یعنی بیچ میں گلی نہیں بنائی جاتی ،عموماً دونوں جانب کے گھروں میں اس درمیانے حصے میں ہوا کے گزرنے کیلئے "ڈک" بنائے جاتے ہیں،اس مقصد کیلئے جالیاں وغیرہ بھی لگائ جاتی ہیں چلیں یہاں تک بھی درست مانے لیتے ہیں پر ہوا کچھ یوں پچھلے عرصے میں ہماری رہائش ایسی ہی اک سوسائٹی میں رہی ہم ٹہرے ذرا ناک مزاج، صبح اٹھتے تو مارننگ الرجی لگاتار آٹھ دس تو چھنکیں مار ہی دیا کرتے وہ بھی باآواز بلند۔۔۔ چند تو گزر گئے پھر ہماری سماعت نے اپنی آواز کے ساتھ اجنبی چھینکنے اور کھنکارنے کی آوازیں محسوس کیں تو طبیعت بےزار سی ہوگئی اب اِدھر ہم اپنی چھینکے کی عادت سے ہلکان ادھر ان آوازوں کی گونج سے پریشان تھے کہ اک دن وضو کرکے جو فجر کی نماز پڑھتے سجدے میں گئے یک بارگی دل بھر آیا کہ یارب العالمین ایسی کیا بے پردگی کہ ہماری آواز چاہے وہ چھینکنے یا کھانسنے ہی کی ہو وہ نہ صرف کوئ غیر سنے بلکہ دہرا کر ہمیں باور بھی کروائے۔
خیر دعا کرکے ہم بھی اس شھر دل فریب کی دوڑ میں شامل ہونے کیلیے گھر سے نکل کو آفس پہنچے تو خبر ملی" کرونا اور لاک ڈاؤن"
یہ مارچ دوہزار بیس کی بات تھی اور آج جبکہ ستمبر دوہزار بائیس ہے اس پورے دو سال اور چار ماہ کے عرصے میں اگرچہ کہ ہم بھی وہی ہیں اور ہماری طبیعت بھی وہی، سوسائیٹی بھی وہی ہے اور صبح شام بھی وہی پر اب ہمیں اپنی نازک طبیعت کی گونج سنائی نہیں دیتی ۔
یہاں بتاتے چلیں کے لاک ڈاؤن سے لے کر اب تک ہر ہر نماز میں اپنی شہہ رگ سے بھی قریب اس رب ذوالجلال سے سرگوشیوں میں کہتے رہے ہیں کہ یارب ہم نے ایسا تو نہیں کہا تھا کہ پوری دنیا ہی کے چھینکنے اور کھانسنے پر پابندی لگادیں آپ۔ بخش دیجئے ہمیں ہمارا ایمان ہے کہ آپ کی رحمت یقیناً آپ کے غضب پہ حاوی ہے۔
ہماری صبح اب بھی سردی، گرمی، بہار، خزاں اور برسات میں چھینکتے ہوئے ہوتی ہے
اور اس سے زیادہ حیران کن یہ ہے کہ کرونا اور لاک ڈاؤن کا زمانہ رہا یا حالات نامل ہوئے نہ کسی ہمارا نوٹس لیا اور نہ ہی رہورٹ کی۔۔ جبھی تو یہ شہر اور اس کے باسی ہمیں بہت پسند ہیں۔
شکریہ کراچی
شکر الحمد للہ رب العالمين یقیناََ آپ ہماری شہہ رگ سے بھی قریب تر ہیں۔

0 تبصرے